افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد محمد حمید شاہد 1957 میں پنڈی گھیب ضلع اٹک، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غلام محمد سماجی اور سیاسی کارکن تھے اور گھر میں کتب خانہ بنا رکھا تھا جس نے محمد حمید شاہد کو مطالعہ کے طرف راغب کیا۔ آپ کے دادا حافظ غلام نبی 1947 میں اپنے آبائی گائوں چکی کو خیرباد کہہ کر پنڈی گھیب میں بس گئے تھے ۔ میٹرک کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلھ لے لیا اور بہ قول سید ضمیر جعفری وہاں سے بستانیت کے فاضل ہوئے۔ بعد ازاں قانون کے تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخل ہو گئے۔ مگر والد ماجد کی شدید علالت اور بعد میں موت کے ساتھ ہی یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور ایک بنکار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔
محمد حمید شاہد کی ادبی زندگی کا آغاز یونیورسٹی کے زمانے ہی سے شروع ہو چکا تھا۔آپ یونیورسٹی کے مجلہ “ کشت نو“ کے مدیر رہے۔ آپ کے پہلی کتاب اسی زمانے میں لاہور سے شائع ہوئی ۔ پہلے پہلے انشائے بھی لکھے مگر جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آ گئے۔ “بند آنکھوں سے پرے“ کی اشاعت کے بعد اردو دنیا کی توجہ پا لی۔ آپ کے افسانوں کے مجموعوں “جنم جہنم“ اور “مرگ زار“ کے بعد آپ کا شمار اسی کی دہائی کے نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ محمد حمید شاہد کے ناول “ مٹی آدم کھاتی ہے“ اور اردو افسانوں “ سورگ میں سور“،“ مرگ زار“ اور “ برف کا گھونسلا “ کو بہت نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔






مسعود مفتی، خالدہ حسین، اسد محمد خان،۔محمد حمید شاہد


