
محمد حمید شاہد کی کہانی میں رنگ ہے رس ہے، ممتاز مفتی
محمد حمید شاہد نے سچی اور کھری زندگی کی ترجم انی کا حق ادا کر دیا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی
محمد حمید شاہد نے بھر پور اظہار اورزندگی کی اٹھتی ابھرتی اور پھیلتی لہروں کو اپنی گرفت میں لیا ہے ۔ڈاکٹر اسلم فرخی
محمد حمید شاہد ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگارگو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔ دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی



محمد حمید شاہد کا افسانہ “برشور” پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کردار سازی کا ہنر دیکھتے ہوئے مجھے منٹو یاد آ گیا کہ یہ کام اس سے خاص ہو کر رہ گیا تھا۔ ظفر اقبال

محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ فتح محمد ملک
حمید شاہد میرے نزدیک اُن محدود افراد میں ہیں جن سے اُردو افسانے کے وقار و اعتبار میں یقیناً اضافہ ہوگا۔افتخار عارف
محمد حمید شاہد ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیں ان کی کہانیاں زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔اپنی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کی خوشبولئے ہوئے اورافسانے کی روایت سے گہرا رشتہ رکھتے ہوئے ۔لیکن تازگی اورندرت کی حامل اورایسی پراثرکہ پڑھ لیں تو پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔اندر حلول کرجاتی ہیں۔ خون میں شامل ہو جاتی ہیں۔منشایاد
محمد حمید شاہد واردات و ماجرائی ت کا کہانی کار نہیں ہے ‘ کسی واقعے اور حادثے کی رپورٹنگ اس کا منصب نہیں ہے۔ وہ توواقعات و حوادث اور افتاد و گداز سے پیدا ہونے والی حسی لہروں کو اپنے تجربے کے انٹینا کی مدد سے اپنے احساس میں جذب کر لیتا ہے اور پھر انہیں تخلیقی طور پر تصویروں کی صورت میں نشر کر دیتا ہے ۔ سید مظہر جمیل
گیارہ ستمبر کے پس منظر میں سؤروں کی آمد ‘ کتوں کی بہتات ‘ بکریوں کی اموات اور مونگ پھلی کی کا شت جیسی علامتوں سے حمید شاہد نے عالمی بساط پر کھیلے جانے والے اس مکروہ کھیل سے پردہ اٹھایا ہے جس میں موت اور مات ہمارے تہذیبی تشخص کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ جہاں کہانی ختم ہوتی ہے وہاں سے اذیت کی دلدل شروع ہو گئی ہے ۔بلاشبہ اس کہانی کو اردو ادب کی بڑی کہانیوں میں اعتماد کی ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ علی محمد فرشی

محمد حمید شاہد کے افسانے کی ہر سطر سے تخلیقی شان اور تخلیقی خود شعوریت کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ ماجرا کہیں یا کسی کردار کے اوضاع و اطوار کو پیش کریں‘ کسی کیفیت کا بیان ہو یا کوئی نفسیاتی تجزیہ‘ جمالیاتی طور کا بطور خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ناصر عباس نیر
محمدحمید شاہد نے اپنے افسانوں میں معاصر زندگی کو پیش کرتے ہوئے قابل قدر فنی گرفت کا ثبوت دیا ہے ۔ اس نے اپنے افسانے میں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی کے دواسالیب کو باہم دگر آمیز کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اس نے اپنے بعض افسانوں میں علامت نگاری کی تیکنیک کو بھی برتا ہے ۔ امجد طفیل