top of page

محمد حمید شاہد: خدوخال


مرتب : قیوم طاہر


ذاتی کوائف
محمد حمید شاہد ۲۳ مارچ ۱۹۵۷ء کو پنڈی گھیب ‘ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر میں پائی اور بقول سید ضمیر جعفری زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے بستانیت کے فاضل ہوئے ۔ عملی زندگی میں ایک بینکار کی حیثیت سے داخل ہوئے آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔

ادبی کوائف
افسانے
محمد حمید شاہد کے اب تک افسانوں کے تین مجمو عے شائع ہو چکے ہیں
بند آنکھوں سے پرے ۱۹۹۴ء الحمد ‘ لاہور
جنم جہنم ۱۹۹۸ء استعارہ‘ اسلام آباد
مرگ زار ۲۰۰۴ اکادمی بازیافت‘ کراچی
تنقید
افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ حمید شاہد تنقید کا بھی اہم نام بن چکے ہیں ۔ ادبی جرائد میں ان کے تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہو کر سنجیدہ ادبی حلقوں کو مسلسل متوجہ کر رہے ہیں ۔ ان کی تنقید کتابی صورت میں بھی سامنے آچکی ہے
ادبی تنازعات(مرتبہ ڈاکٹر رؤف امیر) ۲۰۰۰ء حرف اکادمی ‘راولپنڈی
اشفاق احمد: شخصیت اور فن( تدوین) ۱۹۹۹ء اکادمی ادبیات پاکستان

(اردو افسانہ:صورت و معنی اور کہانی اور یوسا سے معاملہ بعدازاں شائع ہوئیں)
نثمیں
محمد حمید شاہد نے نثری نظموں کا نام ’’نثم‘‘ کے طور پر اپنا لینے کی حمایت کی اس کے لیے ایک لغت بھی مرتب کی ۔ علاوہ ازیں ان کی اپنی نثموں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے ۔
لمحوں کا لمس ۱۹۹۵ء القلم ‘ اسلام آباد
دیگر
محمد حمید شاہد نے ادبی زندگی کے آغاز پر انشائیے بھی لکھے جو مختلف جرائد میں شائع ہوئے ۔ بڑے بچوں کے طنزیہ قاعدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
الف سے اٹکھیلیاں ۱۹۹۵ء القلم ‘ اسلام آباد
الف سے اٹھکیلیاں کے بارے میں انور مسعود کا کہنا ہے کہ حمید شاہد نے بلےں شاہ کے اس کہے کو سچ کر دکھایا ہے کہ اکو الف ترے درکار ۔ انہوں نے بین الاقوامی شاعری اور فکشن کے تراجم بھی کیے ۔ ان میں سے بین الاقوامی شاعری کے تراجم سے کچھ کا انتخاب کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے
سمندر اور سمندر (مرتبہ : ارشد چہال) ۲۰۰۰ء دستاویز لاہور
حمید شاہد نے پاکستانی اور بین الاقوامی ادب کے منتخب ادب کی ترویج اور تراجم کی طرف جو کام کیا اس باب میں دو مجموعے بہت اہم ہیں :
پاکستانی ادب۔ ۲۰۰۲: نثر ( شریک مرتب : منشایاد) ۲۰۰۳ء اکادمی ادبیات پاکستان
سارک ممالک: منتخب تخلیقی ادب( شریک مرتب : انور زاہدی ) ۲۰۰۴ ء اکادمی ادبیات پاکستان
محمد حمید شاہد کی پہلی کتاب سیرت النبی ؐپر ہے جو انہوں نے اپنے یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں لکھی ۔ یہ کتاب ’’ پیکر جمیل ‘‘پہلی بار ۱۹۸۳ء میں لاہور سے اور اس سے اگلے برس بھارت سے چھپی جب کہ اب تک اس کے متعدد انڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

عہد کی گواہی
محمد حمید شاہد کی فکشن نگاری اور تنقید کو ملک اور بیرون ملک کی اہم ادبی شخصیات کی توجہ حاصل رہی اس سلسلے کچھ آراء :
ممتاز مفتی:
ہم آج تک اپنی پر اسرار’’ میں‘‘ کو نہیں سمجھ پائے تو دوسروں کو کیا سمجھیں گے۔ کہانی اس پر اسرار ’’میں‘‘ کی جھلکیاں پیش کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے کہانی ایک عظیم تخلیق ہے ۔ ہر کہانی کار انسانی’’ میں ‘‘ کی ’’پرزم‘‘ کے رنگوں کی جھلکیاں دکھانے کی کوشش کرتا ہے ‘ دقت یہ ہے کہ بات کا صرف کہہ دینا کافی نہیں ہوتا ۔ ضروری ہے کہ بات پہنچ بھی جائے۔ محمدحمید شاہد کے بات کہنے کا انداز ایسا ہے کہ وہ پہنچ جاتی ہے ۔ اس کے بیان میں سادگی اور خلوص ہے‘ خیالات میں ندرت ہے۔ اس کا نقطہ نظر مثبت ہے اور اس کی سچائیوں میں رنگ ہے ‘رس ہے ۔
احمد ندیم قاسمی:
محمد حمید شاہد نے سچی اور کھری زندگی کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے ۔وہ کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر حاوی ہے ۔ اس کے افسانوں کے ہر کردار کو زندگی کے اثبات یا نفی‘مسرت یامحرومی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ان افسانوں کا ایک ایک کردار ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔محمد حمید شاہد نے اپنے افسانوں کو لمحہ رواں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ بھی دے دیا ہے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی:
دراصل محمد حمید شاہد وہ بیباک اور معنی آفریں شاعر ہے جو زندگی کی سفاکیوں کو زیادہ قریب سے نمایاں کرنے اور بہ انداز شعر بیان کرنے کی خاطر افسانے کی محفل میں دراتا چلا آیا ہے ۔اس نے اپنی شاعرانہ سرشت سے افسانے میں حقیقت پسندانہ انداز کے ساتھ شعریت کو سمو کر ایسی روایت کی تخلیق کی ہے جس کی اساس صداقت اور ہمہ گیر انسانی جذبہ ہے۔محمد حمید شاہد کے افسانوں میں شہر اور دیہات دونوں ایک رشتہ میں بندھے نظر آتے ہیں ۔ دونوں میں خارجی وجود کا بھرپور اظہار بھی کرتے ہیں اور ان کے باطن سے ایک نہیں کئی لہریں اٹھتی اُبھرتی اور پھیلتی محسوس ہوتی ہیں۔ محمد حمید شاہد نے بھر پور اظہار اور اٹھتی ابھرتی اور پھیلتی لہروں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانے محمد حمید شاہد کے خوب صورت ہمہ جہتی انداز اور فکر کا آئینہ دار ہیں۔
سید ضمیر جعفری:
حمید شاہد نے تحریر کے کانوں میں خاص اپنی ٹکسال کی بالم بالیاں ‘ ماتھے پر جھومتے جھومراور بازؤوں میں بجتے گجرے ڈال دیے ہیں ۔ مجھے حمید شاہد کی تحریروں پر ہنستی ہوئی کپاس کے کسی بھرواں کھیت کا گمان ہوتا ہے جس کے ساتھ آس پاس کی زندگی بھی مسکرانے لگے۔
پروفیسرانور مسعود:
ایک شہر آشوب پڑھنے کے لیے بڑا حوصلہ درکار ہے ۔ مثبت اقدار کی بے قدری کی نشاندہی کسے گوارا ہے ؟ اس کو گوارا بنانے کے لیے حمید شاہد نے ایسا پیرایہ اپنایا ہے کہ کانٹوں کے مضافات میں گلاب ہی گلاب کھلے ہوئے ہیں۔
محمود واجد:
مقابلتاً جوان جسم پر سجی ہوئی دور تک دیکھنے والی آنکھیں اور بے حد سوچتا ہوا ذہن ‘ تیز فقروں سے سجی ہوئی تحریر ‘ بڑی سے بڑی بات چھوٹے چھوٹے فقروں میں کہہ جانا ‘ کسی رورعایت سے گریز ۔یہ ان کا بایوڈاٹا ہے ۔ ’’مرگ زار اتنی خوب صورتی سے فکشن بنایا گیا ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔ تیکنیکی طور پر اچھا لگا۔ نوٹ یا pauseدے کر اسے پلاٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ’’سورگ میں سؤر ‘‘جس طرح علامت بن گئی ہے یا ’’لوتھ‘‘ میں جو دکھ برآمد ہوا ہے یا ’’ گانٹھ‘‘ میں جو تصویر برآمد ہوتی ہے وہ مکمل ہے ۔ ’’دکھ کیسے مرتا ہے ‘‘ یہ اور طرح کی کہانی ہے جس میں ہسپتال دکھ رقم کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ ذاتی دکھ کا ئناتی دکھ محسوس ہوتا ہے ۔’’برشور‘‘ ایک لرزا دینے والا افسانہ ہے ‘ انسانی المیے اور کلچر کو سمیٹتا ہوا مکمل شہ پارہ۔
محسن احسان:
لمبی عمر پا لینے کا وظیفہ کرنے والے یہ لفظ قاری کے ذہن کو جھنجھوڑتے ہیں ۔ اس کے دل کے تاروں میں لرزش پیدا کرتے ہیں ۔ اسے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیسے تخلیق کار شاعری کے بندھے ٹکے اصولوں سے منحرف ہو کر شاعرانہ حسن کے ساتھ ایک خیال کو دلکش الفاظ کا روپ عطا کرتا ہے ۔ آپ کو ان میں متنوع جذبات سے بھری ہوئی دنیا ملے گی جس کی تازہ کاری اور طلسمی فضاآپ کو مسحور کر دے گی۔ ان میں اپنی زمین سے محبت‘امن و آشتی سے بے پناہ لگاؤ ‘ جنگ سے نفرت‘وطن عزیز کے مظاہر سے یگانگت‘ذات سے کائنات تک پھیلے ہوئے کرب کی کیفیت‘زبان اور ہونٹوں پر نئے نئے زخموں کی نمود‘ اپنے ہی خون کی کڑواہٹ کو اپنے حلق میں اتارنے کی کوشش‘ کرنوں کی سیڑھیوں پر قدم رکھ کر نور چشموں تک اترنے کی سعی اور فنا کی راہ میں بدن سے پھوٹنے والی کرنوں کی روشنی اپنے مختلف مگر بے حد دلچسپ‘دلپذیر اور دلنواز رنگوں کے ساتھ موجود ہے ۔ محمد حمید شاہد کا مرکزومحور عشق محض نہیں بلکہ جملہ انسانی رشتوں کے ساتھ وابستگی اور محبتوں کا دلکش اظہار ہے ۔
ڈاکٹر رشید امجد:
دیہی دانش اور علاقائی پس منظرکی خوشبو جدید نقطہ نظرمیں آمیز ہو کر حمید شاہد کے افسانوں میں ایسے اسرار کا روشن ہا لہ بناتی ہے جسے اس کی انفرادیت کہا جانا چاہیے۔
خالدہ حسین:
’’جنم جہنم ‘‘ موصول ہوئی ۔۔۔ یہ کہانیاں میں نے فوراً ہی پڑھ ڈالی تھیں ۔ اس کی وجہ شاید وہ مانوس فضا تھی جو آپ کی پوری فکشن کا ماحول بناتی ہے ۔ میرا پختہ ارادہ ہے کہ کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات آپ تک ضرور پہنچاؤں گی کیونکہ میں آپ کو یقیناً ایک قابل توجہ افسانہ نگار سمجھتی ہوں ۔
پروفیسر جمیل آذر:
محمد حمید شاہدکی افسانے پڑھنے میں بہت دلچسپ ہوتے ہیں ۔ ان کے ہاں سیاسی ‘سماجی اور معاشرتی شعور بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ۔ان کے افسانے کا سفر ’’ برف کا گھونسلا ‘‘ سے شروع ہوتاہے اور ’’سورگ میں سور‘‘ جیسے بڑے افسانے تک پہنچتا ہے۔ بے شک اس افسانے کو ہم منٹو‘ بیدی اور انتظار حسین کے ایسے ہی افسانوں کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں ۔اس افسانے میں بھیڑ بکریوں‘ کتوں اور سوروں کی کہانی جس طرح آخر میں ایک علامت کا روپ دھارتی ہے اس سے پڑھنے والے کے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ واقعی حمید شاہد بڑا فن کار ہے ۔
ڈاکٹر انور سدید :
محمدحمید شاہد کو میں ایک ایسے طاؤس کی مثال قرار دیتا ہوں جو اپنے اندر کی آواز اور بوئے مست کے بلاوے پر لبیک کہتے ہیں اور پھر اظہار کی صداقتیں عیاں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار اور انشائیہ نگار ہیں ۔۔۔محمد حمید شاہد کا مقالہ ’’نئی نظم کے اہم نشانات‘‘نئی نظم کے نشانات کو اجاگر کرتا چلا جاتا ہے ۔ اس مقالے کو کڑوی تنقید آلودہ کرنے کی بجائے تخلیقی نکتہ آفرینی کا مظہر بنانے کی کوشش کی گئی ہے اگرقاری نے سابقہ تاثر کسی شاعر کے بارے میں قائم کر رکھا ہے تو یہ مقالہ اسے تبدیل کرنے کی سعی بھی کرتا ہے۔محمد حمید شاہد اب اردو ادب کا اہم نام بن گیا ہے ۔
پروفیسر جلیل عالی:
ایک آفاقی نقطہ نگاہ نے حمید شاہد کو نہ صرف درون ذات یا خیر و شر کی کشمکش کے محاذ پر سرخرو کیا ہے بلکہ اس جنگ کی خارجی رزم گاہ میں حق گوئی اور جرأت و بے باکی کی راہ اپنانے کی ہمہ گیر بصیرت بھی عطا کی ہے ۔ اس کی روحانیت کسی مجہول ہمہ دوستی انداز نظر کی پر فریب رومانوی دھند کے سائے میں سب اچھا کی نفیری نہیں بجاتی ۔ وہ معاشرے کی منفی قوتوں کی انسانیت سوز اور تہذیب دشمن سرگرمیوں کا گہرا شعور بھی رکھتا ہے ‘اور ان کو للکارنے کا حوصلہ بھی ۔۔۔ میں تو حمید شاہد کی فکر‘ نظریات اور منفرد اسلوب کا ہمیشہ سے قائل رہا ہوں۔ ان کے ہاں دنیا کے سیاسی تناظر میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا تخلیقی اظہار پورے اعتماد سے ملتا ہے ۔ نئے منظر نامے میں حکمرانوں کا خوف تو سمجھ میں آتا ہے مگر لکھنے والوں کے ہاں اس خوف کا آجانا المیہ ہے۔ حمید شاہد کا وجود غنیمت ہے کہ ان کے ہاں ساری صورت حال کو جرأت سے دیکھنے اور مزاحمت سے تخلیقی سطح پر برتنے کا رویہ ملتا ہے ۔ انہوں نے نائن الیون کے بعد دنیا کے بدلے ہوئے منظر کے پس منظر کو دردمندی اور کرب کے ساتھ تخلیقی وجود کا حصہ بننے دیا ہے ۔ پھر ان کے ہاں زبان وبیان کے بہت تجربات بھی ملتے ہیں۔ ’’ مرگ زار‘‘ کی اشاعت انہیں بہت اہم افسانہ نگار بنا دیتی ہے ۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی:
محمد حمید شاہد نے انسانی سائیکی کا جو گہرا مطالعہ کیا ہے اس نے اس کی کہانیوں کے کرداروں کو شکستگی اور بے سمتی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ اس کی کہانیاں اکتائے ہوئے دلوں اور تھکے ہوئے جسموں میں ایک نئی حرارت ایک نیا جذبہ اور نیا لہو پیدا کرتی ہیں اور قاری کو ایک عجیب طرح کی لذت اور حس لطافت سے ہمکنار کرتی ہیں اور پھر یہ اطمینان بھی ہو جاتا ہے کہ کہانی اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی ہے اور اس میں یقینی طور پر محمد حمید شاہد کی موضوعی گرفت اور تخلیقی اسلوب کاری کو بڑا دخل حاصل ہے ۔اس کی کہانیاں وجود کو کھونے اور پھر پا لینے کی کہانیاں ہیں جن کا سرچشمہ انسانی جبلتوں کا شعور ہے جو باطنی صداقتوں اور سچے اظہار وبیان سے پھوٹتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی کہانی دل کو بھلی لگتی ہے ۔
ڈاکٹر شمیم حیدر ترمذی:
محمدحمید شاہد کی انگلی میں لیڈین چرواہے والی انگوٹھی ہے اور وہ انگوٹھی والے ہاتھ سے کہانیاں لکھتا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ حمید شاہد نے انگوٹھی کو ایک عادل کی طرح انگلی میں سجایا ہواہے ۔ حمید شاہد اپنی ہر کہانی کے لیے الگ کلچر بناتا ہے ۔ ان کہانیوں میں یہ کلچر موضوعات کے تنوع اور صورت حال کی تبدیلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ حمید شاہد دور جدید کا ایک ایسا افسانہ نگار ہے جو دوسروں سے الگ نظر آتا ہے ۔ اس کی انفرادیت کہانی کے علامتی اظہار اور بیانیہ انداز کے درمیان ایک ایسا پل بنانا ہے جس پر چلنے والا قاری انسان کی ذات اور کائناتی ماحول کی تفہیم کے مرحلے سے با آسانی گزر جاتا ہے ۔ دوسرا عنصر یہ ہے حمید شاہد کی کہانیوں میں وہ کردار‘ صورت حال اور تہذیبی و سماجی عناصر منکشف ہوتے ہیں جنہوں نے زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے ۔ خوب صورت بات یہ ہے کہ افسانہ نگار نے ہمیں اشاروں ہی اشاروں میں اس جہنم سے نکلنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔
احمدجاوید:
جدید افسانے کی تحریک کے بعد نمایاں ہونے والے اپنے ہم عصروں میں وہ اہم تر افسانہ نگارہیں۔
پروفیسر اقبال آفاقی:
حمید شاہد تپسیا کرنے والا فن کار ہے ۔ میری نظر میں وہ افسانے کی تیسری جنریشن کے سب سے قد آور افسانہ نگار ہیں ۔
شہناز شورو:
’’مرگ زار ‘‘ پڑھ کر عجیب کیفیت ہو گئی ۔۔۔ ان کہانیوں نے محض کلیجہ ہی کیا‘ افسانہ نگار کو بھی چبا ڈالا ہو گا۔ بدلتے موسموں ‘ جذبوں ‘ڈرتے خوفزدہ ہوتے ‘ مرتے اور آدرشوں کی عظمت پر قربان ہوتے لوگوں کی کہانی ۔۔۔ جو The survival of the fittest کے جہان میں سب کچھ رول بیٹھے ۔ ہیرے پتھر ہو گئے ‘ مٹی ہوگئے ‘ پتھر گہر بن بیٹھے ۔ آنسو پانی ہوگئے ‘ جذبے حماقت بن گئے ۔۔۔ بچا کیا؟؟ یہ کہانیاں اس کڑوے سچ کے الاؤ سے دھک کر ‘ پک کر باہر آئی ہیں جو صدیوں سے ابل رہا ہے اور جسے جنموں کے آنسو بھی نہیں شانت کر سکتے ۔ ادیب کے قلم کو سلام کہ وہ آگہی سارے خمیازے بھگت کر بھی زندگی زندگی کی سفاکیاں بیان کر رہا ہے ۔
یامین:
محمد حمید شاہد کا افسانہ ’’سورگ میں سؤر‘‘اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ایک فن کار معمولی اشیاء کو زمینی سطح سے بلند کرکے آفاقیت سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ اس افسانے کا کتا اس قدر نمایاں ہوا ہے کہ کا ٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ اور وہ سؤر جس پر نظم لکھ کر ساقی فاروقی نے میرے دل میں اس کے محبت جگا دی تھی اب دوبارہ میری نفرت کا شکار ہونے لگا ہے ۔ علامت کی یہ طاقت پہلی بار دل میں محسوس ہوئی کہ ایک علامت کس طرح ہماری ذہنی زندگی کو تبدیل کر سکتی ہے ۔ اس افسانے نے یہ سبق دیا ہے کہ فطرت اپنی اصل میں انسان کی پہلی ضرورت ہے اور جدید مادہ پرست فارمولے اپنی تمام تر کشش کے باوجود کھوکھلے ہیں ۔ یہ افسانہ نہ صرف پاکستان بلکہ موجودہ دنیا کی تازہ ترین صورت حال پر ایک ایسا مواد فراہم کرتا ہے جس سے مستقبل کا مؤرخ بہت سارے حقائق اخذ کرے گا۔
پروین طاہر:
حمید شاہد ایسا صحرا نورد ہے جو اپنی آبلہ پائی کے بعد انسان کی ذہنی و کائناتی تنہائی اور زندگی کی لا یعنیت کے راز کو پا سکا ہے ۔ شعور ادراک کی اس سطح کو ایک فلسفی یا صوفی ہی چھو سکتا ہے ۔
ارشد چہال:
حمید شاہد اب ہر موضوع کو اتنی سہولت اور اتنے نئے پن کے ساتھ سامنے لاتے ہیں کہ وہ افسانہ ماسٹر پیس بن جاتا ہے ۔ ’’مرگ زار‘‘ کے افسانے ادب کے بڑے افسانوں کے ساتھ رکھ کر دیکھے جانے چاہیءں کہ اب یہ افسانے بڑے افسانوی ادب کا حصہ ہیں ۔۔۔وہ افسانے کو زبان و بیان اور تلمیحات کے ایسے گھنے پن سے بُنتا ہے کہ اس کی فکری گرہیں مواد کے تانے بانے میں جذب ہو جاتی ہیں ۔
محمد حامد سراج:
’’بند آنکھوں سے پرے‘‘ سے لیکر ’’جنم جہنم ‘‘ اور ’’سورگ میں سور‘‘ تک نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حمید شاہد خود ایک مکمل افسانوی گلیکسی (کی طرح)ہیں ‘وہ اپنے آپ کو کہیں ریپیٹ نہیں کرتے ۔ ان کے ہر افسانے کی اپنی ایک الگ نوعیت اور الگ شناخت ہے ۔ حمید شاہد کا ’’برشور‘‘ بلوچستان کی قحط زد ہ سر زمین پر بلکتی آہوں کا ایسا اندوہناک تعارفیہ ہے جو انسان کو خون کے آنسو رلاتا ہے ۔ حمیدشاہدکے قلم نے اسے شاہکار بنادیا ہے ۔وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کے افسانے ’’ سورگ میں سؤر ‘‘ اور ’’گانٹھ‘‘ نہ صرف پاکستان اور اردو ادب کا شاہکار تسلیم کئے جائیں گے بلکہ آنے والے عہد کاناقد انہیں گوگول کے ’ڈیڈ سولز‘بو کیچوکی ’ڈیکمرون اور ہیگل کی ’لوجک ‘کی طرح ادب عالیہ کی لائبریری میں شمار کرے گا۔
زاہد حسن:
سچی بات یہ ہے کہ حمید شاہد کے لکھنے کے کمال نے مجھے حیرت زدہ کیا ۔ ’’سورگ میں سؤر‘‘ کا موضوع جس قدر’’سیریس‘‘ تھا‘کہیں بھی تھڑک سکتے تھے وہ۔ میں ان کی برتی گئی لفظیات اور موضوعی رنگارنگی کے مزے لیتا رہا ۔ دراصل یہ کہانی ہماری سوشیو پولیٹیکل صورت حال کو نہایت خوب صورتی سے بیان کرتی ہے اور ایک فن کار سے جس استعاراتی بنت کی توقع کی جا سکتی ہے وہ اس کہانی میں موجود ہے ۔ اس کہانی کا ترجمہ ہونا چاہیے۔
جمیل احمد عدیل:
محمدحمید شاہد کے قلب ودماغ میں مغائرت نام کی کوئی شے سرے سے موجود نہیں ہے ۔ اس لیے اس نے ہر گام پر تجربے کی صداقت پر صداقت کے تجربے کو فائق قرار دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرستیہ پال آنند، امریکہ:
محمد حمید شاہد کے ہاں مکالمات کے طریق کار اور بیانیہ کے بہاؤ میں ظاہری سطح پر اور زیریں لہروں اور بھنوروں کے بہاؤ‘یعنی باطن میں گونجنے والی آواز میں تال میل کا اسلوب ڈرامائی مکالمات سے مشابہہ بھی ہے اور مختلف بھی ۔انہیں استعاراتی تفاعل کا ہنر آتا ہے ‘ وہ معنیاتی انسلاکات پر قدرت رکھتے ہیں اور علامتی مفاہیم کا فن جانتے ہیں۔
علی امام نقوی، ممبئی:
۔۔۔اور محمد حمید شاہد کے مضامین میں کچھ موڑ تو ایسے آتے ہیں کہ وقار عظیم اور ممتاز حسین بے حد یاد آتے ہیں ۔ ان نکات پہ پہنچنے کے بعد جی کرتا ہے تھوڑا سا توقف کیا جائے ۔۔۔مبارک باد دی جائے ۔۔۔محمد حمید شاہد نے تو کمال کردیا ہے ۔۔۔افسانہ لکھیں یا مضمون ‘خوب جانتے ہیں کیا لکھنا ہے کیسے لکھنا ہے ۔
یوسف عارفی، بنگلور :
حمید شاہد کے افسانے بڑے پر اثر اور جاندار افسانے ۔۔۔ ایک اہم بات جو مجھے ان افسانوں میں نظر آئی وہ یہ ہے کہ انہیں زبان وبیان پرحیرت انگیز قدرت حاصل ہے ۔ بہت دھیمے اور آہستگی کے ساتھ وہ قاری کے ذہن پر چھا جاتے ہیں ۔
مشرف عالم ذوقی،دلی:
’’سورگ میں سور‘‘ جیسی کہانیوں کے خالق محمد حمید شاہد آج پاکستان کی نئی کہانی کا ایک ایسا ناقابل فراموش چہرہ بن چکا ہے، جس کی کہانیو ں میں ’آج‘ کے ’گملے‘ میں اُگے ہوئے نوکیلے کانٹے صاف نظر آجاتے ہیں۔ اپنے گھر، اڑوس پڑوس، ارندھتی رائے کی شہرۂ آفاق تصنیف ’دی گاڈ آف اسمول تھینگس‘ کی طرح حمید شاہدان کانٹوں کی تلاش میں باہر نہیں جاتے،وہ عالمی پیمانے پر بُنی جارہی دہشت پسندی کو اپنے آس پاس ہی تلاش کرلیتے ہیں۔’مرگ زار‘ اور دوسری کہانیاں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
رونق شہری‘جھریا‘دھنباد:
تھوتھنی کے حوالے سے اصل نام لیے بغیر محمد حمید شاہد(افسانہ ’’سورگ میں سور‘‘ میں) دعوت غور و فکر دینے میں کامیاب رہے ہیں ۔ فطرت کی معصوم کاری گری میں تحفظ کے لیے تعینات کتے اب بے ضرر ہو چکے ہیں ۔تاہم زیر زمین مونگ پھلی کے ذائقے کی خوشبو پلید خور سوروں کو ہمیشہ راس نہ آسکے گی۔
محمد حمید شاہد کے حوالے سے کام
۔۔۔اصغر عابد نے حمید شاہد کے منتخب افسانوں کوسرائیکی میں ترجمہ کیا اور ڈاکٹر طاہر تونسوی نے اسے ’’پارو‘‘ کے نام سے سرائیکی ادبی بورڈ ملتان کے زیر اہتمام چھاپا۔
 ۔۔۔محمد حمید شاہد کے افسانوں کے انگریزی میں تراجم بھی ہوئے جو پروفیسر شوکت واسطی اور عطیہ شیرازی نے کئے ۔ انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک کے مختلف ادبی جرائد نے شائع کیا ۔
۔۔۔ ان کی نثموں کا انگریزی میں ترجمہ علامہ بشیر حسین ناظم اور پروفیسر شوکت واسطی نے کیا جو "دی ٹچ آف مومنٹس" کے نام سے ۱۹۹۵ء میں اسلام آباد سے طبع ہواہے ۔
۔۔۔محمد حمید شاہد کی تخلیقات کا جائزہ لینے والے مضامین کو اظہر سلیم مجوکہ نے ’’تخلیقی جہات‘‘ کے عنوان کے تحت یک جا کیا۔یہ کتاب ملتان سے بیکن ہاؤس نے۲۰۰۲ء میں شائع کی ۔
۔۔۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز ‘قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی ایک طالبہ اُمِ حبیبہ نے۱۹۹۹ء میں ’’محمد حمید شاہد کی تصانیف ‘‘ کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا۔
۔۔۔ محمد حمید شاہد کے افسانے کے موضوع پر۲۰۰۰ء میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ‘ اسلام آباد کے زوار طالب نے ڈاکٹر رشید ا مجد کی نگرانی میں ایم اے کا تھیسسز لکھا۔

***

آفاق ، راول پنڈی، پاکستان سے شائع ہونے والا اہم ادبی جریدہ رہا ہے ، جسے قیوم طاہر مرتب کیا کرتے ۔ اس کے ایک شمارہ میں خصوصی مطالعہ کے تحت محمد حمید شاہد کا گوشہ چھاپا گیا ۔ اسی خاص نمبر سے مقتبس

bottom of page