top of page

اس ناول کے بارے میں

شمس الرحمن فاروقی

محمد حمید شاہد اپنے افسانوں میں ایک نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر پیچیدگی کے باوجود (مثلاً ان کا زیر نظر ناول، اور ’’شب خون‘‘ ۳۹۲تا۹۹۲میں مطبوعہ ان کا افسانہ ’’بدن برزخ‘‘) ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے، حالانکہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ (اسی بات کو باختن نے یوں کہا تھا کہ فکشن نگار سے بڑھ کر دنیا میں کوئی تنہا نہیں، کیوںکہ اسے کچھ نہیں معلوم کہ اس کا افسانہ کون پڑھ رہا ہے اور کوئی اسے پڑھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔) اسی وجہ سے جدید افسانہ نگار اپنے قاری کے لئے کتابی تو وجود رکھتا ہے لیکن زندہ وجود نہیں رکھتا۔ محمد حمید شاہد اس مخمصے سے نکلنا چاہتے ہیں اور شاید اسی لئے وہ اپنے بیانیے میں قصہ گوئی، یا کسی واقع شدہ بات کے بارے میں ہمیں مطلع کرنے کا انداز جگہ جگہ اختیار کرتے ہیں۔محمد حمید شاہد کی دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔  محمد حمید شاہد کے سروکار سماجی سے زیادہ سیاسی ہیں، حتی کہ وہ اپنے ماحولیاتی افسانوں میں بھی کچھ سیاسی پہلو پیدا کر لیتے ہیں۔ ’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں مشرقی پاکستان/بنگلہ دیش کی حقیقت سے آنکھ ملانے کی کوشش رومان اور تشدد کو یکجا کر دیتی ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہئے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگارگو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔ دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید

اسلم سراج الدین
افتخار عارف
منشایاد
ممتاز احمد خان
علی محمد فرشی
راشد جمال فاروقی
bottom of page