top of page

محمد حمیدشاہد کے افسانے

امجد طفیل

محمد حمید شاہد کا شمار اپنی نسل کے نہایت متحرک اور فعال تخلیق کاروں میں ہوتا ہے ۔ اُس نے افسانے‘ تنقید اور ترجمے کے میدان میں نہایت اچھی تحریریں اپنے پڑھنے والوں کو دیں ہیں۔ محمد حمید شاہد کا رویہ ایک ایسے تخلیق کار کا رویہ ہے جو اپنے تخلیقی جوہر کو مختلف اصناف‘ اسالیب اور موضوعات کی کٹھالی میں ڈال کر پرکھتا ہے اور خود کو کسی تنگ دائرے میں قید کرنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ اس بات نے اسے ایک طرف تو مختلف تناظر میں خود کو پرکھنے کی سہولت دی ہے ‘ دوسرا اس کے ہاں فنی اور فکری کشادگی بھی در آئی ہے جو میرے خیال میں آج کے لکھنے والوں کے لیے نہایت ضروری بات ہے۔

محمدحمید شاہد نے اپنے افسانوں میں معاصر زندگی کو پیش کرتے ہوئے قابل قدر فنی گرفت کا ثبوت دیا ہے ۔ اس نے اپنے افسانے میں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی کے دواسالیب کو باہم دگر آمیز کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اس نے اپنے بعض افسانوں میں علامت نگاری کی تیکنیک کو بھی برتا ہے ۔ تکنیک اور اسالیب کے تنوع کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں بھی تنوع نظر آتا ہے ۔ وہ انسانی زندگی کے المیے کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے ۔سیاسی و سماجی حالات کو بھی اپنی تخلیقات میں سموتا ہے ۔ زندگی کی جبریت کے مقابل انسان کی بے بسی کو بھی پیش کرتا ہے اور محبت کے کومل جذبے کو بھی اپنی تخلیقی آنچ سے نکھارتا ہے ۔ اُس کے افسانوں میں تخلیقی وفور اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں اس کا تخلیقی عمل ہمیں آگے کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس کے ہاں کسی جمود یا ٹھہراؤ کا احساس نہیں ہوتا اور یہ بات بذاتہ اتنی اہم ہے کہ صرف اسے ہی ہم کسی لکھنے والے کے زندہ ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔
محمد حمید شاہد کا تخلیقی سفر ’’ بند آنکھوں سے پرے‘‘ سے آغاز ہوتا ہے ۔ افسانہ نگار نے اپنے پہلے مجموعے میں ہی متنوع موضوعات اور اسالیب کو برتنے کی کوشش کی تھی ۔ اس مجموعے میں اگرچہ ایسی کہانیاں زیادہ ہیں جو محبت کے تجربے کے گرد بُنی گئی تھیں لیکن اس میں دوسرے موضوعات کو بھی افسانہ نگار نے چھیڑا ہے۔ ’’برف کا گھونسلا‘‘ ’’جنریشن گیپ‘‘’’وراثت میں ملی ناکردہ نیکی‘‘میں افسانہ نگار نے مختلف موضوعات کو سلیقے سے نبھایا ہے ۔ ’’وراثت میں ملی ناکردہ نیکی‘‘ اگرچہ ہمیں اپنے موضوع کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’’سفارش‘‘ کی یاددلاتاہے تاہم اپنی ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے مختلف اور اچھی کہانی ہے ۔ ’’کفن کہانی‘‘ اور’’ بند آنکھوں سے پرے‘‘اس مجموعے کی بہترین کہانیاں ہیں جن میں تکنیک اور موضوع کی پیچیدگی پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ یہ افسانے ہمیں افسانہ نگار کے اگلے سفر کی نوید دیتے ہیں ۔
’’بند آنکھوں سے پرے‘‘ محبت کی ازلی تثلیث کے گرد بُنی گئی ہے ۔ یہاں دو مرد ایک عورت کی محبت میں مبتلا ہیں۔ ایک اُسے پا لیتا ہے لیکن ایک کسک ہمیشہ اسے تنگ کرتی رہتی ہے کہ کیا واقعی وہ اپنی بیوی کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا بھی ہے یا نہیں ۔ ظاہر ہے بند آنکھوں سے پرے دیکھنے کی طلاحیت تو ابھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
’’کفن کہانی ‘‘ کا بیانیہ زیادہ تہہ دار اور پیچیدہ ہے ۔ یہاں مرد کی مردانگی‘ پنجاب کی لوک روایات‘ عورت کی محبت سے پگھلتا مرد اور پھر ظلم کے ایک نئے دور کا آغاز۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد گرد پھیلی غربت‘ ناانصافی‘ سماجی پس ماندگی۔یوں محمد حمید شاہد نے اپنے اس پہلے مجموعے کے اس افسانے میں انسانی باطن میں اُترنے کی سعی کی اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ۔ اُس نے موت اور کہانی کے تانے بانے کو کچھ اس طرح ملادیا تھا کہ’’ کفن کہانی‘‘ کئی نسلوں پر محیط ہو گئی ۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں کے دوسرے مجموعے ’’ جنم جہنم ‘‘ میں ہمیں اس کا سفر آگے کی طرف قدم بڑھاتا دکھائی دیتا ہے ۔ منشایاد نے لکھا تھا کہ :
’’ یہ کہانیاں سچ کی کو کھ سے پھوٹی ہیں اور سچے انسانی جذبوں کو خلوص اور سچائی سے پیش کرتی ہیں کہ انہیں لکھنے والا ہر رنگ کی کہانی اور کہانی کے ہر رنگ کو اپنی گرفت میں لینے پر قدرت رکھنا ہے ۔‘‘
جہاں تک منشایاد کی پہلی بات کا تعلق ہے تو میرے لیے اس کا اثبات کافی مشکل ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کہانی کا سچ کی کوکھ سے پھوٹنا ضروری ہوتا ہے ۔کہانی تو کہانی ہوتی ہے ‘ سچ یا جھوٹ نہیں ہوتی ۔ جہاں تک جذبوں کی سچائی کی بات ہے تو آج تک انسانی جذبوں کی گہرائی کو کون سمجھ سکا ہے ۔ ہاں منشایاد نے حمید شاہد کے ہاں فکری اور فنی تنوع کی جو بات کی ہے اس سے مجھے اتفاق ہے ۔ اسی طرح فتح محمد ملک نے محمد حمید شاہد کے افسانوں کا رشتہ انتظار حسین کے’’اپنی متروک روایت کی بازیافت‘‘ سے جوڑا ہے تو اس میں مجھے جزوی سچائی نظر آتی ہے ۔ اپنی متروک روایت کی بازیافت محمد حمید شاہد کے افسانون کا صرف ایک رنگ ہے اور ہم اسے محمد حمید شاہد کے افسانے کا مرکزی رنگ قرار نہیں دے سکتے ۔
’’جنم جہنم‘‘ کی کہانیاں ہمارے سماج میں فرد کی زندگی جہنم بن جانے کی روداد ہیں۔ حمید شاہد کے پہلے افسانوی مجموعے میں ہمیں انسان کے بارے میں ایک رجائیت پسند فکر کا سراغ ملا لیکن اپنے دوسرے مجموعے تک آتے آتے یہ رجائی رویہ اب کچھ دبتا جارہا ہے ۔ معاصر سماجی ماحول‘ بین الاقوامی صورت حال‘ عالمی اور مقامی استحصال اور حالات کے جبر کی چکی میں پستا انسان اور اس میں بھی خاص طور پر عورت پر گزرتی واردات۔ لیکن یاد رہے کہ حمید شاہد عورتوں کی آزادی کی موجودہ تحریک کی وکالت نہیں کررہا وہ تو عورت کے اُس دکھ اور درد کو پیش کرنے کی سعی کر رہا ہے جو حالات اسے بخش رہے ہین ۔ اس مجموعے کا پہلا افسانہ ’’تماش بین ‘‘ ہمیں کچھ اسی نوعیت کے منظر سے دوچار کرتا ہے ۔
محمد حمید شاہد نے کہانی نگار کے موٹیف کو کئی بار اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے ۔پہلے مجموعے میں اس حوالے سے ’’ ماسٹر پیس‘‘ اور ’’کفن کہانی‘‘ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جبکہ دوسرے مجموعے کی دوسری کہانی ’’ ماخوذ تاثر کی کہانی‘‘ اسی موٹیف کو لیے ہوئے ہے ۔ اس افسانے میں بھی افسانہ نگار نے ایک تخلیق کار کے کرب اور سماج ‘ خاندان کے خلاف اس کی جدوجہد اور بے بسی کو پیش کیا ہے ۔ حالات کی جبریت کو توڑنے کا سب سے بہتر ذریعہ ’’تخلیق‘‘ ہے ۔ ہر نئی تخلیق اس بات کا اعلامیہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے اردگرد موجود حالات کی جکڑ بندی کو توڑ سکتا ہے ۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں سماج اور خاندان لکھنے والی کو کچھ یون آکٹوپس کی طرح اپنی گرفت میں لیتے ہیں کہ اس کی تخلیقی سرگرمی کے لیے وقت اور گنجائش نکلتی ہی نہیں ۔ ساری زندگی اپنے خاندان کی ضروریات پورا کرنے کے عمل کی نذر ہو جاتی ہے اور تخلیق کار یوں دہرے کرب سے گزرتا ہے ۔ یہ وجودی کرب تخلیق کار کو بری طرح پیس کر رکھ دیتا ہے ۔
’’پارو‘‘ میں محمد حمید شاہد نے پوٹھوار کی فضا میں ایک نسوانی کردار کی تصویر کشی کی ہے ۔ اس میں ہمارے سماج کے توہمات ‘ لوگوں کے سوچنے کے اندازاور عورت کی بے بسی کو کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے ۔ ہم ’’ گرفت‘‘ کو بھی اسی پس منظر میں سمجھ سکتے ہیں جس میں افسانہ نگار نے دہرے معاشرتی معیاراتکو بیان کیا ہے اور یہاں مجھے اس کا یہ رویہ اچھا لگتا ہے کہ نہ تو وہ طنز کے تیر چلاتا ہے ‘نہ بلند آہنگ احتجاج کرتا ہے ۔ بلکہ وہ تو صرف حالات کی عکاسی کرتا ہے ۔اب چوں کہ حالات میں بذاتہ طنز اور احتجاج دونوں موجود ہیں تو وہ خود بخود افسانے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس سے افسانہ نگار کا فن بھی مجروع نہیں ہوتا۔
’’ہار جیت‘‘ میں فضا پوٹھوار کے ماحول کی ہے جس میں زیبو ایک مضبوط کردار کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ اس افسانے میں محبت اوک دوسرے میں مل گئے ہیں۔فیروز خان محبت اور عداوت کے جذبات سے جب اپنے حریف کو ہرا دیتا ہے تو اس کا بھائی رقیب کی شکل میں سامنے آکھڑا ہوتا ہے ۔ اب فیروز خان کی جیت ہار میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ ’’ہار جیت‘‘ صرف مشرقی معاشرے میں ہی لکھی جا سکتی ہے جہاں بڑے بھائی کا والد جیسا احترام کیا جاتا ہے اور خاندانی اقدار ابھی اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں ۔
’’جنم جہنم‘‘ کو افسانہ نگار نے تین سطحوں پر لکھا ہے اور اس میں انسانی وجود اور اس پر گزرنے والی کیفیات کو بھی درجہ بہ درجہ بیان کیا ہے ۔ اس کا مرکزی کردار ’’وہ‘‘ ایک نسوانی کردار ہے جو اپنی زندگی کے آغاز سے اپنی خوہشات کا گلا گھونٹتی چلی آئی ہے لیکن وہ اپنی ناآسودہ خواہشات کی تسکین چاہتی ہے ‘جو نہیں ہوتی۔ پہلے حصے کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے:
’’ جہنم اگر کوئی ہے تو وہ محض کسی نظر میں سما جانے کی خواہش ہے ۔۔۔ میں نے ناحق اس جہنم کو اپنا مقدر بنائے رکھا۔‘‘
اس نے قہر بھری ایک اور نظر حیرت در حیرت کے تلے سسکتے وجود پر ڈالی ‘ بڑبڑائی۔۔۔
’’ عذاب کسی بھی دوسرے وجود کا نام ہے ۔۔۔ یہ عذاب میرے لیے پہلے وہ تھا اور کچھ لمحے پہلے تک تم تھے۔۔۔‘‘
بچا کُچھا لعاب ایک مرتبہ پھر اس نے اپنے منھ میں جمع کیا اور اس کے چہرے پر ایک اور تہہ چڑھا دی۔۔۔
پھر اُس نے زندگی سے بھر پور قہقہہ لگایا اور زیست کی نئی شاہراہ پر نکل کھڑی ہوئی‘‘ ( جنم جہنم ۔ص:۱۱۱)
اس جگہ ہمیں جدید وجودی فکر کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ جو زیست کی نئی شاہراہ پر نکل ہے اُسے زندگی میں کیا ملتا ہے اس کا بیان اس افسانے کے دوسرے حصے میں ہوا ہے۔ اور افسانہ نگاراس افسانے کے دوسرے میں اپنی زندگی سے رس کشید کرتی ہے لیکن یہ تجربہ بھی زیادہ دیر ساتھ نہین چلتا اور دوسرے حصے کا اختتام اس فقرے پر ہوتا ہے
’’ زیست اور کچھ نہیں بس لعنت ہی لعنت ہے ۔‘‘ ( جنم جہنم ۔ص:۱۱۸)
تیسرے حصے میں وہ پیچھے رہ جانے والی سے آن ملتا ہے اور دونوں مل کر زندگی کی بے معنویت ‘ انسان کے احساس تنہائی اور بے بسی سے معنویت کھوجتے ہیں۔ تیسرے حصے کا آخری جملہ انسانی زندگی کا حاصل سامنے لاتا ہے :
’’ یہ جو لعنت کی کٹاری کی تیز دھار ہے نا۔۔۔ بالآخر یہی تو بندے کا مقدر ہے ۔‘‘ (جنم جہنم ۔ص :۱۲۲)
’’نئی الیکٹرا‘‘ یونانی دیو مالا کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے ’’ الیکٹرا‘‘ کے کردار کو معاصر صورت حال میں نئے معنی دینے کی کو شش کی ہے ۔ ’’ الیکٹرا‘‘ جو محبت کی علامت ہے تشدد سہتی ہے لیکن یہ تشدد اور اذیت اس کے حس میں نکھار پیدا کرتے ہیں ۔ ’’نئی الیکٹرا‘‘ ایک دغا باز‘ فریبی‘عیار‘مکار کردار ہے ۔ جو ڈھونگ رچاتی ہے اور دوسرے افراد کو دھوکا دیتی ہے ۔ افسانے کے آخر تک آتے آتے الیکٹرا جدید عورت کی علامت بن جاتی ہے :
’’ وہ الیکٹرا ہے ۔
گلیوں کا خون پکارتا ہے
وہ کلائٹمنسٹرا ہے
دغا باز‘ فریبی ‘مکار۔۔۔
مگر لوگ اُسے دیکھنے اور سننے پر مجبور ہیں ۔
اس لیے کہ اس کے پاس مرجینا والی چمکتی جلد‘ فیدرا جیسے بھڑکتے جذبات‘ الیکٹرا جیسی بلند ہمتی‘ کلائٹمنسٹرا جیسی عیاری‘ ایلیشیا جیسا ڈھونگ‘ شکنتلا جیسا حسن اور چالیس چوروں کی طاقت ہے ‘‘
(جنم جہنم ۔ص :۱۴۰)
اس افسانے میں افسانہ نگار نے اگرچہ مرکزی کہانی تو یونانی دیو مالا ہی سے لیا لیکن اس نے اِس میں مشرقی کہانیوں کے نسوانی کرداروں کے پیوند لگادیئے ہیں اور الیکٹرا کو عہد حاضر کی علامت بنادیا لیکن یہ سوال تو بجا طور پر پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ ہے کہ آج کی عورت ایسی ہی ہے یا وہ اپنی صدیوں پر پھیلی مظلومیت کی آج بھی رسید ہے ۔
محمد حمید شاہد کا تیسرا مجموعہ ’’ مرگ زار‘‘ ہمیں اس کے تخلیقی سفر کی کچھ اور جہات سے روشناس کراتا ہے ۔ ان افسانوں میں حمید شاہد نے معاصر صورت حال کا دائرہ عالمی سطح تک پھیلا دیا ہے ۔ وہ اب اپنے سماجی جبر کی جڑیں عالمی استعمار کی کارستانیوں میں تلاش کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ‘‘میں فکشن لکھتا ہوں اور وہ سچ بن جاتا ہے‘‘ یادرہے کہ یہ فکشن اور ادب کا سچ ہے اور ضروری نہیں کہ دنیاوی سچ کے قریب بھی ہو۔ اس مجموعے پر رائے دیتے ہوئے رشید امجد نے لکھا ہے :
’’ تہذیبی دانش کی خوش بو اور دیہی منظر نامہ جدید فکرو احساس سے آمیز ہو کر حمید شاہد کے افسانوں میں اسرار کا جو ہالہ بناتے ہیں اسے حمید شاہد کا امتیاز کہنا چاہیے۔‘‘
رشید امجد نے محمد حمید شاہد کے امتیاز کی کافی درست نشاندھی کی ہے ۔ میں اس میں انسانی نفسیات کی عکاسی اور عالمی استعمار کی مخالفت کے عناصر کو بھی شامل کرتا ہوں۔
’’برشور‘‘ میں افسانہ نگار نے بلوچستان کے پس منظر میں غربت کے ہاتھوں انسان کی بے توقیری اور عورت کی لا چاری کو پیش کیا ہے۔ انسان حالات کی چکی میں پستے پستے کیسے بھربھرے آٹے میں تبدیل ہوتا ہے ۔ اس بات کا عمدہ بیان اس افسانے میں موجود ہے ۔ ’’ برشور‘‘ میں بلوچستان کے ماحول ‘ بلوچستان کے دیہی علاقوں کی غربت اور وہاں آباد لوگوں کی تصویر کشی کرکے حمید شاہد نے پاکستانی اردو افسانے میں کمیاب عنصر کو نمایاں کیا ہے ۔
’’رُکی ہوئی زندگی‘‘ عورت اور مرد کے تعلق اور عورت کی نفسیات میں چھپی بعض کیفیات کو گرفت میں لینے کی اچھی کوشش ہے ۔ عورت میں پسند کئے جانے ‘ چاہے جانے اور کسی کو اپنی طرف متوجہ پاکر خوش ہونے کی حس کس طرح نسوانی کردار میں تبدیلی لاتی ہے اور گھریلو زندگی کی یکسانیت کیسے نسوانی کردار کو کچلتی ہے ان کیفیات کو افسانہ نگار نے خوبی سے پیش کیا ہے ۔
’’لوتھ‘‘ گیارہ ستمبر کے واقعات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ ایک کردار جو اپنے ارد گرد کی آگاہی رکھتا تھا‘ جو حالات کی مطابق رد عمل ظاہرکر سکتا تھا‘ کیسے ناتجربہ کار ڈاکٹروں کی وجہ سے رفتہ رفتہ لوتھ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔’’معزول نسل‘‘ میں ان ڈاکٹروں کا المیہ بیان کیا گیا ہے جو رفتہ رفتہ اپنی اصل سے دور ہوتے جاتے ہیں اور ان اقدار اور اس طرز معاشرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو ان کے اپنے تھے ۔ یہ سب کچھ کھو کر ان کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آتا۔
’’ گانٹھ‘‘ بھی گیارہ ستمبر کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے ۔ یہاں بھی معالج اپنا کردار درست انداز میں ادا نہیں کر رہا ہے ۔ عصبی ریشوں کے وسط میں پڑنے والی اضافی گانٹھیں مریض کو رفتہ رفتہ خاتمے کی طرف لیے جارہی ہیں ۔ اس افسانے کا توصیف ان لوگوں کی علامت ہے جو مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنا نام تک بدل لیتے ہیں ۔ لیکن مغرب انہیں پھر بھی اپنے ساتھ شناخت نہیں کرتا ۔ وہ اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں لیکن جس چیز کو پانے کے لیے وہ اپنی اصل سے کٹتے ہیں وہ پھر بھی انہیں حاصل نہیں ہوتی۔ یہ وہ المیہ ہے جس کا سامنا آج مغرب زدہ مسلمان کو کرنا پڑ رہا ہے ۔
’’سورگ میں سور‘‘ میں عالمی معاصر صورت حال کے خلاف احتجاج کی لے تیز ہو جاتی ہے ۔ یہاں اپنی معاشرت کے ایک منفی استعارے کو جنت ارضی میں دکھا کر اس تضاد کو ابھارا گیا ہے جو نیکی اور بدی کی قوتوں میں موجود ہے ۔ اس کہانی کے لیے پورا منظر نامہ دیہی ماحول سے تیار کیا گیا ہے شاید اس اعلان کے بعد کہ آگ کی دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے عالمی استعمار کو پیش کرنے کے لیے دیہی استعارے زیادہ بامعنی ہو گئے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے اردو افسانے میں دیہی منظر ایک نئی معنویت کے ساتھ ابھرے گا۔ افسانہ نگار نے بکریون کی اقسام کو انسانی طبقات کے ساتھ خوب صورتی سے جوڑا ہے اور اس بات کی نشاندھی کی ہے کہ آج کے استعمار کے سامنے سب بے بس ہیں ۔
’’موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ‘‘ بھی عالمی استعمار کے خلاف بلند آہنگ احتجاج ہے ۔ ان افسانوں میں ہمیں مقامی طور پر لوگوں کو جبر کا شکار بنانے والے وہ بوزنے نظر آتے ہیں جو کہیں دور بیٹھے اصل کرداروں کی نقل کر رہے ہیں اور یہ نقل بھی کافی بھونڈی ہے ۔ ’’موت منڈی میں اکیلی موت کاقصہ‘‘ کے آخر تک آتے آتے دنیا بھر کے مقتدر لوگوں کی رانوں کے بیچ سے وہ مردانگی جو حوصلہ دیتی تھی ‘ کے بہہ جانے سی ایک حریص طاقت کے مقابل لوگوں کی بے بسی کو دکھایا گیا ہے ۔
’’ادارہ اور آدمی‘‘ میں عالمی معاشی صورت حال کے سامنے انسان کی بے بسی کو پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں افسانہ نگار نے گنتر گراس کے اس بیان کو کہانی کی بنیاد بنایا ہے کہ ہمارا آج کا سماج انسانیت کش اقدامات اس لیے کرتا ہے کہ لوگ صرف ذاتی فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کی گردنیں مارنے کے لیے ہروقت تیار رہتے ہیں۔ اس افسانے کی زبان دفتری نوعیت کی ہے لیکن افسانہ نگار نے اسے کافی حد تک تخلیقی زبان بنا دیا ہے ۔
’’مرگ زار‘‘ میں مری کا ماحول ایک بار پھر محمد حمید شاہد کے افسانون میں نمودار ہوتا ہے ۔ ’’برف کا گھونسلا‘‘ کی طرح ’’مرگ زار ‘‘ افسانے میں بھی موت ڈیرے ڈالے ہوئے ہے لیکن یہاں افسانہ نگار ایک اہم سوال اٹھاتا ہے کہ وطن کے لیے جان قربان کرنے کا عمل بھی بے معنی ہو چکا ہے کیوں کہ اس عمل کے ساتھ وابستہ تقدیس ختم ہو چکی ہے۔ موت حمید شاہد کے تخلیقی تجربے میں بہت اہمیت کی حامل ہے اور اس کی بہت سی کہانیاں موت کے موٹیف کے ارد گرد بُنی گئی ہیں ۔ ’’مرگ زار ‘‘ تک آتے آتے تو ایسے لگتا ہے کہ موت کے علاوہ سب سچائیاں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ ’’مرگ زار‘‘ اپنے قارئین کے ساتھ بہت دور تک چلتی ہے ۔
محمد حمید شاہد نے اپنی افسانوی کائنات بری خوب صورتی سے تشکیل دی ہے اُس کے پاس موضوعات کی بھی کمی نہیں ‘اُسے افسانہ بننے کا ہنر بھی آتا ہے اور وہ زبان کے تخلیقی استعمال سے بھی آگاہ ہے ۔ یہ عناصر محمد حمید شاہد کے افسانوں میں اس کیفیت کو جنم دینے لگے ہیں جو بڑے افسانوں کا طرہء امتیاز ہوتی ہے ۔

***

bottom of page